You are on page 1of 6

‫بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم ‪1‬‬

‫بخدمت‪:‬محترمہ ُمدیرۂ سنڈے میگزین ‪ ،‬روزنامہ جنگ‪،‬کراچی‬


‫بسلسلۂ‪’’:‬آپ کا صفحہ‘‘ ‪،‬اشاعت ‪ :‬مورخہ‪۲۰ :‬؍مئی ‪۲۰۱۸‬ء کراچی ایڈیشن‬
‫’’تین کی کسوٹی !‘‘‬
‫بیٹی نرجس ! وعلیکم السالم ؒ و برکاتہ‘ !! سداخوش ‪،‬سالمت‪،‬فعال‪،‬ماال مال‬
‫رہئے‪،‬آمین!!‬
‫دعائیں ‪ ،‬سالم ‪ ،‬پیار ‪،‬ڈانٹ ڈپٹ ‪،‬سب کو !!‬
‫ارے میرے ’’نواب زادے ‘‘! اس واری ’’آپ کا صفحہ ‘‘ سب سے پہلے‬
‫ُکریدا۔اچھی بھلی معصوم ’’ماڈل‘‘کے عقب میں ‪ ،‬کراچی کی ’’سمبلڈ ‘‘ موٹر‬

‫تحفظ جان و مال وعزت و آبرو کے’’ بھی‘‘ بغیر ہوا‬ ‫ِ‬ ‫سائکل ‪،‬جو بغیر بریک اور‬
‫کرتی ہے ‪،‬بھال‪،‬کیسی لگے گی ؟؟’’نسائیت ‘‘ ہر چند‪ ،‬اب‪ ،‬سواری کی’’ مردانہ‬
‫و زنانہ‘‘ قیود سے آگے ہوچلی ہے ‪ ،‬بچیّاں بھی موٹر سائکلیں اُڑا رہی ہیں ‪،‬‬
‫لیکن ۔۔۔لیکن ۔۔۔ معاشرہ اور وہ بھی ’’پاکستانی !‘‘ ‪’’ ،‬اس کا کیا ہوئے گا ؟ ‘‘‬

‫( یہ جمال مشتاق یوسفی صاحب کے قلم سے مزا دے جاتا ہے ‪،‬ہللا انھیں سالمت‬
‫اور صحت مند رکھے پروردگار ‪ ،‬آمین ! سرمایہ واثاثۂ پاکستان ہیں )‬

‫سنئے میاں ‪،‬اے’’ مر ِد اعتراض ‘‘ ! ایسا کرو ‪،‬کہ‪،‬آج سے ’’ سنڈے‬


‫ایک بات ُ‬
‫میگزین ‘‘ کاجائزہ ’’ تین کی کسوٹی ‘‘ پر لیا کرو‪ ،‬اب پوچھو گے ‪ ’’:‬سر جی‬

‫سنو! بلکہ میرے سارے ب ّچے اور بچیّاں‬


‫‪ ،‬تین کی کسوٹی کیا ؟ ‘‘ ‪ ،‬لو بھئی ُ‬
‫’’تین کی کسوٹی ‘‘ پڑھ لیں(کیونکہ نرجس بی میرے مضمون تو چھاپیں گی‬
‫نھیں ‪ ،‬کوئی اِن کی‬

‫ٹیم میں‪ ،‬لگتا ہے‪،‬بیوہ وپروفیسروں کااُدھار کھائے بیٹھا ہے‪ ،‬بس جانے‬
‫دیجئے‪،‬اب) ‪،‬ہوا یُوں ‪،‬کہ ‪،‬ایک دن افالطون اپنے اُستاد ’’سقراط‘‘ کے پاس آیا‬
‫اور‬
‫بوال‪ ’’:‬اُستاد محترم! آپ کا نوکر بازار میں کھڑا ہوکر آپ کے بارے میں غلط‬
‫بیانی کررہا تھا !‘‘ سقراط نے مسکرا کر پوچھا (بالکل ہماری طرح)‪’’:‬میاں ! وہ‬
‫کیا کہہ رہا تھا ؟ ‘‘‬

‫افالطون ‪( :‬جذباتی انداز میں ) ‪ ،‬سر ‪ ،‬سر وہ کم بخت آپ کے بارے میں کہہ رہا‬
‫تھا کہ ۔۔۔‬

‫سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے خاموش کردیا ۔پھر کہا ‪’’:‬تم اس بات‬
‫کوسنانے سے پہلے ‪،‬اسے‪،‬تین کی کسوٹی پرتو پرکھ لیتے !‘‘‬

‫افالطون(گھونچو بن کر) ‪ :‬میرے عظیم و محترم اُستاد ‪،‬تین کی کسوٹی کیا ہوتی‬
‫ہے ؟‬

‫‪2‬‬
‫سقراط ‪( :‬ہنستے ہوئے) کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو بات تم مجھے بتانے والے ہو‬
‫‪،‬وہ سو فیصدی ’’ سچ‘‘ ہے؟‬

‫افالطون‪ :‬جی ہرگز نھیں !‬

‫سقراط‪ :‬جو بات تم ہمیں بتانے لگے ہو‪،‬کیا وہ اچھی بات ہے ؟‬

‫افالطون ‪ :‬ہرگز نھیں اُستاد محترم !!‬

‫سقراط ‪ :‬اچھا میاں ‪،‬یہ بتاؤ ‪،‬جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو ‪ ،‬کیا وہ میرے یا‬
‫تمہارے لئے مفید ہے ؟‬

‫افالطون ‪ :‬اے عظیم اُستاد ! یہ بات ‪ ،‬آپ کے ‪ ،‬میرے ‪ ،‬بلکہ کسی کے لئے بھی‪،‬‬
‫کچھ فائدہ مند نھیں !‬

‫خادم سعید آباد ) !‬


‫ِ‬ ‫سقراط ‪(:‬ہنستے ہوئے ) ارے میرے پیارے (نواب زادے لیکن‬
‫جو بات کہنے یا لکھنے لگو‪ ،‬تو پہلے اس کا تجزیہ کرو ‪ ،‬اس کے بعد فیصلہ‬
‫کرو کہ‬

‫تمہیں ‪،‬یہ بات بتانا یا لکھنا چاہئے یا نھیں ؟ اگر وہ اچھی بات نہ ہو‪ ،‬اپنے اُستاد یا‬
‫سنانے والی نہ ہو ‪،‬کسی بھی طور سے موجودہ حاالت میں‬ ‫کسی بھی محسن کو ُ‬
‫مفید و‬

‫قلم‬
‫ممکن نہ ہو‪،‬تو‪،‬میرے شہزادے ‪ ،‬اس بات سے ’’خاموشی بہتر ہے !‘‘ (از ِ‬
‫‪:‬پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفر انوار حمیدی‪،‬گلبرگ ٹاؤن والے باباجی )‪ ،‬اس واری‬
‫’’‬

‫برقی چھٹیوں میں ‪،‬ساون جہاں کے ’’انڈوں کی ٹوکری ‘‘کے ’’جواب کا‘‘‬
‫جواب نھیں ‪ ،‬ہاہاہاہا‪،‬ہاہاہاہا‪،‬ہاہا! ہائے توبہ !چوتھا روزہ کہاں ہے میرا ؟ ذرا‬
‫ڈھونڈیو کوئی‬

‫!!خالی پیٹ ہنس ہنس کر درد ہونے لگا‪ ،‬اب ‪،‬تشریف الئیے ‪’’،‬میگزین ‘‘ اور‬
‫تحریرسرورق عمدہ رہے‪ ،‬بچیّاں ‪،‬پردے میں‬
‫ِ‬ ‫اس کے مندرجات پر ‪ ،‬سرورق و‬
‫مزید‬

‫’’لیڈی فرشتے ‘‘ لگا کرتی ہیں ‪ ،‬ماشا ء ہللا !‪’’،‬سرچشمۂ ہدایت ‘‘ میں دونوں‬
‫مضامین ’’خاصے ‘‘کے رہے‪ ،‬بالخصوص ‪،‬پہلے عشرۂ رمضان کی ’’اِن باکس‬
‫‘‘ دعا‪ ،‬ماشاء‬

‫ہللا سبھی کو یاد کرنے میں سہولت ہوگئی ‪،‬رؤف ظفر صاحب کے ’’ امریکا میں‬
‫افطاری دسترخوان ‘‘ کو پڑھ کر لطف آیا‪ ،‬لندن میں توجابجا مسلمانوں کے‬
‫روزہ‬

‫افطارنے کے مراکز بھی(قائم) ہوتے ہیں(خاص کر مانچسٹر و برمنگھم میں )‬


‫‪،‬طاہر حبیب صاحب کی تحقیق ’’بایو فزکس ‘‘ کے طالب علموں کے لئے مفید‬
‫‪3‬‬
‫ہے‪’’،‬ہمارے ادارے ‘‘ میں ’’ بحریہ کیڈٹ کالج ‘‘ کو متعارف کرایا گیا‪،‬کالج‬
‫کی کمانڈو امبرین(پرنسپل) صاحبہ کی باتیں فکر و عمل کے قابل ہیں ۔طلعت‬
‫عمران‬

‫ب شرقی ‘‘ (حکمت) پر اچھا لکھا ‪’’،‬عالمی اُفق ‘‘ پر اِس کمبخت کی‬


‫نے ’’ ط ِ‬
‫فوٹو دیکھتے ہی آگے لپکا (ارے اسی’’ ٹرمپے‘‘ کی ) ‪’’،‬نئی کتب‘‘ سے نجمی‬
‫صاحب کی‬

‫ت طیبات ‘‘ اور ڈاکٹر افشاں کے مقالے ’’اُردو فکشن پر سقوط۔۔۔‘‘ سے‬


‫’’بنا ِ‬
‫آگاہی ہوئی ‪ ،‬ہللا کرے ‪ ،‬دونوں کتب کسی کراچوی پبلشر کے پاس مل پائیں‬

‫‪،‬آمین ! ’’ہیلتھ و فٹنس ‘‘ میں ڈاکٹر غزالہ و ڈاکٹر احمد کے مضامین ‪ ،‬دونوں‬
‫اس لئے مزید مفید (ثابت)ہوئے کہ ما ِہ رمضان میں پڑھنے کو ملے ۔کوئی‬
‫ماہر‬
‫’’ ِ‬

‫امراض چشم‘‘ موتئے پر بھی لکھ دے ‪ ،‬دہنی آنکھ بالکل ساتھ چھوڑ رہی ہے‪،‬‬ ‫ِ‬
‫ہر معالجِ چشم بضد ہے کہ ‪’’:‬ابھی موتیا پکا نھیں ! ‘‘ میاں ! موتیا نہ ہوا‪ ،‬ہماری‬
‫’’نصف‬

‫بہترین‘‘ کی ہنڈیا ہوگئی ‪ ،‬موئی ہمارے کالج جانے سے پہلے چڑھتی ہے اور‬
‫خاتون‬
‫ِ‬ ‫ہمارے سہ پہر‪،‬گھر آنے تک ’’چڑھی‘‘ رہتی ہے ‪ ،‬کہ ہر گھنٹہ بعد ’’‬
‫تھانہ‬

‫خاتون خانہ ‘‘اس ناس ِپیٹی( ہنڈیا) کو(ہماری محبت بلکہ‬


‫ِ‬ ‫‘‘۔۔۔۔ معاف کیجئے گا ’’‬
‫عقیدت میں) مسلسل گرم کئے جاتی ہیں ‪ ،‬چنانچہ شام چار کے لگ بھگ ‪،‬ہم‬

‫ایک روٹی سے جو ’’سالن ‘‘ نوش جاں ‪ ،‬بلکہ ’’ قات ِل معدۂ ضعیف ومرگِ جاں‬
‫‘‘ کرتے ہیں ‪ ،‬بخدا ‪ ،‬ایسا ’’آلو گوشت کسٹرڈ ‘‘‪ ’’،‬چنا دال کھچڑا ‘‘ ‪ ’’ ،‬مونگ‬
‫کی فیرنی‬

‫ب شیریں‘‘و دیگر(بے‬
‫‘‘‪ ’’ ،‬ماش کی ربڑی ‘‘ ‪’’،‬مسوری ٹرائفل‘‘‪’’،‬بھنڈوی ل ِ‬
‫نمک کھانے میٹھے ہی لگتے ہیں بیٹی)‪ ،‬خدائی قسم کسی اور ’’پروفیسر ‘‘ نے‬
‫کھائے ہوں‬

‫تو بتادے ایمان سے ! اور پھر ‪ ،‬دوغلے پن کی انتہا‪ ،‬کہ ساتھ ساتھ ‪ ،‬ہر نوالے‬
‫پر’’ نرخرہ سوار‘‘ خاتون کو جتاتے ‪،‬بتاتے بھی رہو کہ‪’’:‬اے واہ‪ ،‬سبحان ہللا‬
‫بیوی ‪،‬‬

‫ارے مار ڈاال ظالم تیرے ہاتھ کے نشے نے !‘‘‪،‬ایک شام بع ِد مغرب ‪ ،‬ہم نے‬
‫پروفیسر شاہد اقبال کے کندھے پر ہاتھ رکھ کرپوچھا ‪’’:‬سر!آپ نے‪،‬درس گاہ‬

‫سے واپسی پر‪ ،‬کھٹملوں کے بگھار واال ’’اسٹو‘‘کھایا ہے کبھی‪ ،‬یا مری جو ؤں‬
‫کے تڑکے والی مونگ کی پتلی کھچڑی ‪،‬یا‪ ،‬یا‪،‬بگھارے الل بیگوں واال‬
‫قورمہ؟‪،‬گھبرا کر‬

‫کچھ یاد آجانے سے ُمنکر ہوکربولے‪’’:‬نہیں نہیں ‪ ،‬کبھی نھیں !‘‘ ہم تو چہرہ‬
‫شناس ہیں ‪ ،‬خوب ہنس کر پوچھا‪’’:‬کیوں ‪ ،‬کیا آپ کی ُمنّی سی پلیٹ میں بے‬
‫تحاشا کالی‬

‫مرچوں واال اسٹو‪،‬بیشمار زیرے کے بگھار والی کھچڑی‪،‬بیشماربڑی االئچیوں‬


‫واال قورمہ کبھی نھیں دیتی‪،‬آپ کی چھوٹی بہو ِبٹیا آپ کو؟‘‘ ہاہاہاہا۔۔۔ بس اب‬
‫ختم‪،‬‬
‫‪4‬‬
‫معاف کردو ِبٹیا !!! ‪ ):‬ارے ارے ‪ ،‬ایک ’’ملٹ ‘‘(منٹ)‪ ،‬وہ ’’پیارا گھر ‘‘ کا‬
‫ماشا ہللا جواب نھیں اور ’’ناقاب ِل فراموش ‘‘ میں خالد میاں کی کہانی’’ دل لے‬

‫ب دعا‪:‬‬
‫گئی!‘‘ ‪،‬سدا خوش‪ ،‬سالمت تا قیامت‪ ،‬فعال ‪،‬ماال مال رہئے!! آمین!!( طال ِ‬
‫شیر تعلیم برائے اُردو‪،‬‬
‫پروفیسرڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی ‪ ،‬سابق ‪ُ :‬م ِ‬

‫ت پاکستان برائے گریڈ ‪،‬ایم پی۔ ون ) السالم علیکم ؒ ‪،‬‬‫وفاقی محکمۂ تعلیم ‪ ،‬حکوم ِ‬
‫فی امان ہللا ا لعظیم و الحکیم ‪ ،‬آمین !!‬

‫ڈاکی پتا ‪ :‬گلبرگ ٹاؤن ‪ ،‬فیڈرل بی ایریا ‪ ،‬بالک ‪ ،۱۳‬کراچی ‪ :‬پوسٹ کوڈ ‪:‬‬
‫‪ ،75950‬موبائل فون نمبر ‪,:‬‬
‫‪www.facebook.com/proffhameedi‬‬

‫بخدمت ‪:‬‬
‫محترمہ نرجس ملک ‪،‬ایڈیٹر ‪ ’’ :‬سن ڈے میگزین ‘‘(اشاعت‪20:‬؍مئی ‪2018‬ء) ‪،‬‬
‫’’میگزین سیکشن ‘‘ (’’اخبار منزل‘‘ ‪ ،‬پہلی منزل ) ‪،‬‬
‫روزنامہ جنگ ‪ ،‬آئی آئی چندری گر روڈ ‪،‬کراچی ‪74200 :‬‬
‫ٹیلی فُون ‪Extn: 2119 | 02132637111 :‬‬

You might also like